Contributors

Sunday, 30 December 2018

بلاول بھٹو کی تقریر مخدوم بلاول کی للکار

بلاول بھٹو مخدوم بلاول کی للکار۔
تحریر: جاوید نایاب لغاری 

بلاول بھٹو کی محترمہ بینظیر بھٹو کی گیارہوین برسی پر کی جانے والی تقریر کے یوں تو کئی پہلو تھے جن کی ہر حوالے سے تشریح کی جا سکتی ہے مگر ایک پہلو جو کافی حلقوں مین باعث بحث بنا وہ تھا ایک نظم کا قافیہ “ وہ باغی تھی مین باغی ہوں” اس دور کے رسم رواجوں سے یہ نوجوان بغاوت کرنے چل نکلا جس کی پشت پے شھیدوں کی قبرین اور ان کا نظریہ ہے۔ سندھ مین اکثر و بیش تر بغاوت کے کرداروں کو یاد کیا جاتا ہے وہ منصور حلاج ہوں، شھید شاھ عنایت ہوں یا مخدوم بلاول اور شھید ذوالفقار علی بھٹو۔ بلاول بھٹو کی تقریر کے وقت سماں سوگوار تھا ڈھلتی  سرد شام مین خاموش بیٹھے ایک جیالے نے مجھے سندھی مین کہا یہ بلاول بھٹو کے آواز مین مخدوم بلاول بول رہا ہے اور بلاول بھٹو کا اگلا جملہ یہ تھا کہ مین باغی ہوں مین باغی ہوں۔

شھید محترمہ بینظیر بھٹوُ کی برسی پر عمومہ ماحول سوگوار رہتا ہے بینظیر بھٹو کی شخصیت کی سحر انگیزی اس قدر تھی کی گیارہ سال بعد بھی لوگ ان کے مسکراتی ہوئی تصاویر اور وڈیوز کو دیکھ کر بے ساختہ اشکبار ہوتے ہین۔ بلاول بھٹو مین اک جھلک بینظیر  کی دکھائی دیتی ہے وہ ہی جوش وہ ہی ولولہ اور وہ ہی بغاوت جو بینظیر بھٹو نے کی اس ملک مین دائمی آمریت کیخلاف، پارلیامنٹ کو مضبوط بنانے کی جدوجھد، چھوٹے صوبوں کی آواز، مرکز کی اجارہ داری کا خاتمہ ، ملک کو صدارتئ نظام سے بچانا، پانی کی انصاف پر مبنی ترسیل، این ایف سی ایوارڈ مین صوبوں کا حصہ بڑھانا، جمھوری قو توں کی مضبوطی۔ یہ وہ نعرے ہین جن کو پیپلز پارٹی نے حقیقیت مین تبدیل  کیا۔

بلاول بھٹو کی تقریر ایک طرح سے “ اینٹی اسٹبلشمنٹ “ تقریر تھی جو کہ ان حالات مین خود بلاول بھٹو کی سیاست کیلئے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے مگر بلاول بھٹو نے اس کی پرواہ کئیے بغیر  بلوثچ مسنگ پرسنز اور پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت مین بول ڈالا یہ وہ موضوعات ہین جس پے پاکستان مین تمام کم لوگ بات کرتے ہین۔  ایک طرح سے بلاول بھٹو نے پاکستان اور ریاست کے تضادات، اداروں کا بیجا عمل دخل اور نئی حکومت کو شدید  تنقید کا نشانہ بنایا جو کہ پیپلز پارٹی کے جلسوں مین نئی بات نہین۔ 

جب بلاول بھٹو نئی حکومت کو کٹ پتلی کہتا  ہے اور وزیراعظم  کو سلیکٹڈوزیراعظم بولتا ہے 
تو اس کے پیچھے ایک سیاسی منطق ہے وہ منطق یہ ہے کہ ایک طرح سے پی ٹی آئی کو انتخابات سے پہلے ایک گرائونڈ  بنا کر دیا گیا اور باقی پارٹیز کی لیڈرشپ یا جیل مین تھی یا کورٹ کچھریوں کی حاضری مین اور غیبی قوتوں کے بدولت عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ بات اس حد تک نہ رکی  اب نواز لیگ کی ساری لیڈرشپ جیلون مین ہے اور اب پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کو بھی وہی کیسز کا سامنہ ہے ۔ سوال یہ ہے کیا اس ملک کی اسٹبلشمنٹ دو بڑی پارٹیز کی لیڈرشپ کو جیل مین بھیج کر عمران خان کو واک اوور دینا چاہتی ہے ، کیا پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ختم کرکے لوٹون  پر مشتمل نئی حکومت بنائی جائے اور یہان سندھ مین بھی پی ٹی آئی کو کھلا میدان دیا جائے سب سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بغیر سندھ مین پائیدار حکومت کیسے بن سکتی ہے ؟ اور پیپلز پارٹی جس کو سندھ کے اکثریتی عوام ووٹ دیتے رہے ہین کیا اس کو ختم کرنا اس وفاق پاکستان کیلئے مفید ثابت ہوگا یا نہین یہ غلطی تو یہم مشرقی پاکستان مین کر چکے اور اس کا ہم نے خمیازہ ادا کیا۔
ریاست پاکستان مین سیاسی نظام ہمیشہ سے کمزور رہا ہے تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کبھی فوجی مارشلائوں تو کبھی عدلیہ کی فیصلوں کی بدولت حکومتین گرتین اور بنتی رہین تو کبھی منتخب وزراعظم ماردئیے جاتے یا جیلوں مین ڈال دئیے جاتے بلاول بھٹو نے بجا کہا کہ تم مجھسے سودے بازی نہین کر سکتے مین جمھوریت کا سودا نہین کر سکتا 

بلاول بھٹو کی محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پے کی ہوئی تقریر اس ملک مین نئے بیانئیے کی ابتدا ہے ایک تیس سالہ خوبرو نوجوان نے  جو بغاوت کا الم اٹھایا ہے یہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے یہ تو تاریخ بتائیگی مگر کم از کم اس ملک مین کئی سال بعد ایک گرجتی آواز مین اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ  سامنے تو آیا۔